Muhammad Hassan Miraj > Quotes > Quote > Tumhara liked it

Muhammad Hassan Miraj
“ریل کہانی دینہ سے آگے بڑھے تو کلوال، کالا گوجراں سے ہوتے ہوئے جہلم جا کر رکتی ہے۔ دینہ کے بعد ایک ویرانہ ہے جسے محکمہ مال کی قانونگوئی ، بوڑھے جنگل کے نام سے جانتی ہے۔ یہیں سے ایک راستہ، روہتاس کا سراغ لے کر نکلتا ہے۔ ایک بوسیدہ پل پر کاہان کا دریا عبور کریں تو سامنے روہتاس ہے۔ روہتاس کے طلسم سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جائیں تو بھی جہلم میں داخل ہونا آسان نہیں۔ شہر اور چھاونی سے آنکھ بچا کر ایک راستہ رڑیالہ اور داراپور کو جاتا ہے۔ ٹلہ جوگیاں اسی راستے پر واقع ہے۔
روہتاس اور ٹلہ جوگیاں کے بعد، جہلم مسافر کے لئے اپنے بازو کھول دیتا ہے۔ آہستہ آہستہ، دو آبے کا حسن دیکھنے والوں کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ بڑھاپے کی محبت کی طرح، پر تجسس مگر شکستگی پر آمادہ۔ جہلم کتنا پرانا ہے، کچھ یقین سے نہیں کہا جا سکتا، البتہ اتنا پرانا ضرور ہے کہ اس کو چھوڑ کے جانے والے، اب بھی اس کے سحر میں گرفتار ہیں۔ شہر اور دریا کی تاریخ ایک دوسرے سے آنول اور بچے کی مانند جڑی ہے۔ اس سے پہلے کے شہر اپنا افسوں پڑھ کر پھونکے، دریا اس کا طلسم ختم کر دیتا ہے۔
دریائے سندہ تو خیر اپنے ماننے والوں کے لئے مقدس ہے ہی، جہلم کے پانی بھی کئی پرانوں کی جڑیں سیراب کرتے ہیں۔ ویتھ دریا، وتستا، ہائیڈس پس! اس کے چند نام ہیں۔ رگ وید کے مطابق یہ دریا، پورے ہندوستان کو پاکیزگی بخشتے ہیں۔ آج کل، بہرحال، اس کے پانی روح روشن کرنے سے زیادہ گھر روشن کرنے کے کام آتے ہیں۔
اننت ناگ سے پچاس میل دور، ویری نگ کا چشمہ ہے، جہاں سے دریائے جہلم اپنا سر اُٹھاتا ہے۔ کسی زمانے میں اس کی شکل گول کنڈکے جیسی تھی مگر مغلیہ دور میں جہانگیر نے اس جگہ ہشت پہلو تا لاب بنوا کر چشمے کو دو رویہ درختوں سے آراستہ کیا۔ پیر پنجال کے پہاڑی سلسلے سے نکل کر دریا، اننت ناگ، برج بہارہ، اونتی پورہ، سوپورہ اور بارہ مولا سے ہوتا ہوا، میلوں کا سفر طے کر کے مظفرآباد کے راستے پاکستان پہنچتا ہے۔ راستے میں بڑے بڑے آبی ذخیرے اور چھوٹے چھوٹے جذباتی جزیرے بھی آتے ہیں۔ یہیں ایشیا کی سب سے بڑی جھیل وولرہے ۔
ریل کی سیٹی”
Muhammad Hassan Miraj, Rail Ki Seeti / ریل کی سیٹی
tags: travel

No comments have been added yet.