Jump to ratings and reviews
Rate this book

زندیق [ Zindeeq]

Rate this book
'رحمٰن عباس کا نیا ناول ’زندیق
Zindeeq or (Heretic) By Rahman Abbas is the first novel in Urdu literature that has received the support of International Research Grant funded by the ‘Crossing Borders’ program of the ‘Robert Bosch Foundation’ and the ‘Literarisches Colloquium, Berlin’ towards its creative process.
The novel uses mythological stories; tales from Mahabharata, Ramayana, Jewish and Christian folklore, Semitic Scriptures, Babylonian epics, and stories from Puranas to create a fusion of past, present, and future and to comprehend the nature of man as a species.
Zindeeq is a dystopian & apocalyptic novel, a comparative study of the effects of Nazism in Europe and the possible damages that religious extremism may cause in Pakistan and India.
Zindeeq is a multidimensional novel that looks at the wide-ranging issues such as the queer movement, identity crises, espionage, geo-political tensions, jihad as an industry and narrative, politics of Hindutva and racism, patriarchy and freedom of choices, the life of an Urdu poet Meeraji (1912-1949), the Last World War – Armageddon, as predicted by the Semitic scriptures.

786 pages, Hardcover

Published January 1, 2021

3 people are currently reading
32 people want to read

About the author

Rahman Abbas

8 books19 followers
Rahman Abbas (born 30 January 1972) is an Indian fiction writer. He has twice won State Academy Awards for his two novels, first on 'Hide and Seek in the Shadow of God (2011) and again for Rohzin in 2017.
He is the only Indian novelist whose work in German language has received LitProm Grant funded by the German Federal Foreign Office and the Swiss-South Cultural Fund. He writes in Urdu and English. Abbas has master's degrees in Urdu and English literature from Mumbai University. His novels deal with themes of forbidden politics and love. In the twenty-first century Indian Urdu fiction, Rahman has emerged as the finest storyteller with great human sensibilities and seriousness.

Ratings & Reviews

What do you think?
Rate this book

Friends & Following

Create a free account to discover what your friends think of this book!

Community Reviews

5 stars
0 (0%)
4 stars
1 (50%)
3 stars
0 (0%)
2 stars
1 (50%)
1 star
0 (0%)
Displaying 1 - 3 of 3 reviews
1 review
Want to read
March 13, 2022
زندیق | ناول | رحمٰن عباس


رحمن عباس اپنے انداز ، اسلوب ، موضوعات اور معنوی آہنگ کے اعتبار سے اکیسویں صدی کا بہت اہم ناول نگار ہے۔ اسے صنف، دھرم اور نفسیاتی تعصبات سے اوپر اٹھنے کی کوشش کا ہنر آتا ہے ۔رحمن عباس کے روز وشب اور انداز زیست بجائے خود ایک ناول کا عنوان اور مواد خیال کیا جا سکتا ہے ، لیکن جس رغبت اور جس محویت سے وہ لکھنے میں لطف لیتا اور دو زندگیاں جیتا ہے ، یہ اسی کا کام ہے ۔
ارے دو زندگیاں؟
۔۔۔کیا مطلب؟
جی ہاں دو زندگیاں ایک ناول سے باہر اپنی عام زندگی اور ایک ناول نگار کی ناول کے متن و معنی کے اندر والی زندگی۔
روحزن کو ملنے والی توجہ اور ایوارڈ اپنی جگہ لیکن رحمن عباس اپنی مقبول زیر لب مسکراہٹ کے ساتھ زندیق کے ذہنی سفر پر روانہ ہو کر بامراد لوٹ بھی آیا ہے ۔ ایک بڑے ناول نگار کے لیے علم ، تجربات ، مشاہدات اور حیات و کائنات کو متحرک خطوط پر سمجھنے کی مسلسل کوشش میں مصروف ہونا ضروری ہے ، لیکن اسے علم اور مشاہدے کے سب سے بڑے ذریعے یعنی جہاں گردی کا تجربہ بھی امر لازم خیال کرنا چاہئیے۔اور رحمن عباس نے یہ تجربہ کیا۔سچ ہے اندازہ و قیاس تجربے اور ذاتی مشاہدے کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ لیکن اس سچ اور اس کے نتائج کو ناول کا عنوان اور مآل بنانے کے لیے کمال درجے کی خلاقیت درکار ہے ۔اس قوت تخلیق کے بغیر ثواب تو درکنار، گناہ تازہ تر کا امکان بھی معدوم ہو جاتا ہے ۔علامہ اقبال اپنے شہکار جاوید نامہ میں ندائے جمال سے جب یہ کہلواتے ہیں کہ
ہر کہ او را قوت تخلیق نیست
پیش ما جز کافر و زندیق نیست!
تو قوت تخلیق کی اہمیت کی سطح اور منصب کا اندازہ قائم کیا جا سکتا ہے۔
ایک ہاتھ میں نو کتابیں تھامے ،جن میں پانچ ناول بھی شامل ہیں، دوسرے ہاتھ میں مستقبل کے خوابوں کی تعبیر رقم کرنے والا سنہری قلم اٹکائے،یہ نیم متبسم مصنف ،لیکن سیر چشم عاشق رحمن عباس ہے ۔ جب یہ کہیں اور دیکھ رہا ہو تو سمجھ جائیے کہ اس کی توجہ آپ پر ٹکی ہے . اور جب یہ سامنے بیٹھ کر آپ کی آنکھوں کے وسطی جزیرے کو تک رہا ہو تو مان جائیے کہ آپ کی تیسری آنکھ سے مکالمے کا آغاز کر چکا ہے۔
زندیق سرحدوں کو پائمال کرتا معنی و مفہوم کے ان گنت بند کواڑ کھولنے میں مگن ہے۔جہاں پڑھنے کی بجائے سننے کی روایت قوی رہی ہو ،وہاں نثر خوانی کی طاقت اور صلاحیت لوگوں کو حیران کئے جا رہی ہے ۔یہ کتنا گہرا ناول ہے ،اس کا اندازہ تو سارے حفاظتی انتظامات کے ساتھ اس کے متن کے سمندر میں اتر کر ، گہرائی میں تیر کر ، اور ایک بدلی ہوئی کیفیت میں ابھر کر ہی لگایا جا سکے گا۔پر ابھی سے بتا دوں کہ اس ناول کے تیور اچھے معلوم نہیں ہو رہے ۔یہ عقل و خرد کا شکاری ناول معلوم ہو رہا ہے ۔
میں اس ناول کی پرپیچ وادیوں میں اس امید ، عزم اور یقین کے ساتھ اتر رہا ہوں کہ جنگ اور بربادی اس خطے کا مقدر نہیں ہے ۔عقیدے کا بزنس ، جنگ اور تباہی کا کاروبار بھلے کتنا ہی مقبول ہو ، امن اور پیار کے کاروبار سے زیادہ منافع بخش اور سود مند نہیں ہے۔یہ خطہ ارضی محبت کی پیداوار ہے، یہاں جنگ اور فساد کی کاشت تادیر منافع بخش نہیں رہے گی ، ہاں ہاں نہیں رہے گی ۔اس خطہ ارضی کے مسائل اور مستقبل کو ایک عسکری ذہن سے سوچنا اور سمجھنے کی کوشش کرنا کبھی بھی سود مند نہیں رہے گا۔ناول کا ہیرو ایک کمیشنڈ آرمی افسر ہے ،جس کے غور وفکر کا مرکز و محور مفروضہ اور ممکنہ اوہام و قصص کے تناظر میں سازشی نظریات کی تشکیل و ترویج کی امکان شماری کرنا نظر آتا ہے۔
ان دو ہمسایہ ملکوں کو اپنے ماضی کو ترازو سے اتار کر ، اور غلطیوں کے معیار اور مقدار کے تعین سے اوپر اٹھ کر ،یہاں بسنے والے کروڑوں لوگوں کے لیے امن ، سلامتی اور خوشی کے لیے منصوبہ بندی کرنی چاہئیے ۔کیا دونوں ملک یہ ماننے کے لیے تیار ہیں کہ دونوں اپنی اپنی جگہ پر اپنے اپنے انتہا پسندوں کی گرفت میں ہیں؟ چلئیے ،نہ مانئیے ، لیکن مذہبی شدت پسندی کی بنیاد پر جنگ ، فساد اور انتشار کی سیاست کو ایک منافع بخش کاروبار بنانا کہاں کی دانشمندی ہے ۔یہ حکمت عملی دو متحارب ملکوں میں کسی اور کے نہیں ،صرف اپنے اپنے عوام کے خلاف سازش خیال کی جا سکتی ہے ۔بھارت کو اپنے پڑھے لکھے طبقے کو لگام دینے کے لیے اور ساتھ ہی حد درجہ مفلس طبقات کو مذہبی شدت پسندی کے نشے میں مبتلا کر کے حکمران اشرافیہ اور اس کے پالن ہار سرمایہ دار مافیا کے ثبات و دوام کا ایک اچھا اور موثر طریقہ ہاتھ آ گیا ہے۔پاکستان میں بھی ایک روشن خیال اور تقلید سے بےزار ریاست کو مذہبی ریاست بنانے کی کوشش کی جاتی رہی ۔تعلیم سے محبت کرنے والی عامتہ الناس کو اپنی حد میں رکھنے کے لیے مسلکی شدت پسندی کو رائج کیا گیا۔کچھ کام تو سراسر امریکی فرمائش پر ایک عرب مملکت کی توسط سے بھی ہوئے۔اور لطف کی بات تو یہ ہے کہ یہی عرب مملکت آج کل بھارت کے ساتھ شیر و شکر بلکہ بقول ستم ظریف بھیڑ و بکر ہے۔ ان سارے تماشوں نے دونوں ملکوں کی عسکری اشرافیہ کے مفادات کو بھی باہم منسلک کردیا ، اور یہی بات بے حد تشویشناک ہے ۔بھئی جنگ ایک منافع بخش کاروبار ہے ۔اور اس کی بنیاد ریاست کی سلامتی کو لاحق خطرات ہیں ، تو پھر دفاع کے لیے بھاری اخراجات اور انتظامات بھی کرنے ہوں گے ۔یہ عمل اور ردعمل کا ایک کبھی ختم نہ ہونے والا کھیل ہے ۔اس کھیل کو ہندوستانی یا پاکستانی بن کر نہیں انسان بن کر ختم کرنے کی کوشش کرنی ہو گی۔
زندیق کا آغاز ثناءاللہ کی زندگی کے سب سے اہم دن سے ہوتا ہے ،جب اس نے فوج میں اعلی افسر بننے کے لیے لازمی امتحان پاس کیا اور اختتام اس جملے پر کہ " اور جنگ شروع ہو گئی"
زندیق کا اختتامی جملہ " اور جنگ شروع ہو گئی" دراصل امر واقعہ کی بجائے ایک خدشے اور خوف کی طرف اشارہ کرتا دکھائی دیتا ہے ۔جب تک دونوں ملکوں کے ہاتھ تاریخ کی ہتھکڑیوں میں بندھے رہیں گے ، جب تک اس خطے سے کھیلنے والے سفید فام ممالک کے تیار کردہ اور عام کردہ متون سے جان نہیں چھڑائی جائے گی ، جب تک اس خطے پر ٹیکسلا کی روشنی نہیں پھیلے گی ، جب تک انسانی یک جہتی ، انسانی آزادی اور انسانی مساوات کو ایک مشترکہ اصول کے طور پر اپنانے کی کوشش نہیں کی جائےگی،تب تک جنگ شروع ہونے کا خوف دل دہلاتا اور دماغ کو کھپاتا رہے گا۔
لیکن ناول کے صفحات سے بہرحال یہ آواز بھی سنائی دے رہی ہے کہ" اتنا مایوس نہیں ہونا چاہئیے، حالات کی بہتری کی امید رکھنا چاہئیے، کوشش کرنا چاہئیے۔ ہمارا بڑا مسلہ آج بھی غربت ، تعلیم کی کمی اور دقیانوسیت ہے، اسی لیے مذہب دونوں ممالک میں لوگوں کو احمق بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔"
آغاز بہار پر کھلنے والے ننھے سے پیلے خودرو پھول گل قاصد کی قسم انسان کی بقا امن اور محبت میں ہے۔حیرت اس وقت ہوتی ہے جب چند مجنون اور مجرم ماحول کو اسیر کر لیتے ہیں۔اس خطے کے لوگوں کو حالت انتظار سے نکل کر محبت ، امن اور ایثار کی دنیا خود تخلیق کرنی ہو گی۔

کالم - شاہد اقبال کامران
روزنامہ پاکستان
13 جنوری ،2022ء
Profile Image for Riaz Ujjan.
217 reviews4 followers
July 8, 2022
اس سے پہلے رحمان عباس کا روحزن اور خدا کے سائے میں آنکھ مچولی پڑہنے کا اتفاو ہوا تھا. زندیق رحمان عباس کا ایک زخیم ناول ہے جس میں مرکزی کردار ثناءاللہ کے ارد گرد کہانی کو گھماتے ہوئے رحمان نے ہندوستانی معاشرے میں آنے والی تبدیلیوں، خصوصاً سیاست کو عمدہ نمونے بیان کیا ہے. اس کے ساتھ ہٹلر کے دور میں یہودیوں پر ہونے والے مظالم پر تفصیل سے لکھا ہے اور اس کا ہندوستان کے حالات سے موازنہ بھی کیا ہے. علاوه ازیں ایک فرد کی اندرونی اور بیرونی کیفیات اور اس کے دوسرے افراد کے ساتھ تعلق بھی عمدگی سے بیان کیا ہے.
1 review
Read
February 21, 2022
Very engaging and powerful narrative. I finished in a week, and recommend to read serious readers of fiction. If you have not read serious novels, dont begin with Zindeeq. Its completely unconventional book.
Displaying 1 - 3 of 3 reviews

Can't find what you're looking for?

Get help and learn more about the design.