زیر نظر کتاب سب رنگ میں شائع ہونے والی غیر ملکی کہانیوں کی پہلی جلد ہے۔ اور بھی جلدیں زیر ترتیب ہیں، سو احوالِ درون و زبوں کی گُل افشانی کے مواقع آتے رہیں گے۔ عام ایک شکوہ تھا کہ پرانے شمارے آسانی سے نہیں ملتے اور فرمایش تھی، کیوں نہ سب رنگ کی تحریریں کتابی صورت میں شائع کردی جائیں۔ طے یہ ہوا کہ پہلے مرحلے میں سمندر پار کی کہانیوں کو ترجیح دی جائے۔ اِن کہانیوں کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ کئی ذرائع سے ان کا حصول ممکن ہو پاتا تھا۔ اولاً، اِدھراُدھر، ملک بھر سے یا سب رنگ کے چند خاص ترجمہ نگاروں کے ذریعے۔ دوسرے، عالمی افسانوی ادب پر گہری نظر رکھنے والے احباب اور قارئین کے توسّط سے۔ ہماری درخواست پر یہ صاحبان اپنی پسندیدہ غیرملکی کہانیوں کی نشان دہی میں ہماری معاونت کرتے تھے۔ تیسرے، کہانیوں کی تلاش کے لیے باقاعدہ مقرّر و مامور رفیقوں کی کاوشوں سے۔ اِن حضرات کا کام اُردو میں شائع ہونے والی ملکی وغیر ملکی کہانیوں کے بھولے بسرے مجموعے اور رسالے کھنگالتے رہنا تھا..... اور یہ سراغ رساں یا کھوجی ناکام نہیں ہوتے تھے۔ چوتھا ذریعہ خاصے مقابلے کا اور بڑا دل چسپ تھا۔ بیرون ملک مقیم سب رنگ کے شیدائی یورپ اور امریکا سے چھپنے والی کہانیوں کے تازہ ترین مجموعوں اور رسالوں کی تاک میں رہتے تھے۔ اُن کی کوشش ہوتی تھی کہ اِدھر کوئی نئی کتاب یا رسالہ بازار میں وارد ہو، اُدھر دیگر ڈائجسٹوں کے ہاتھ لگنے سے پہلے سب رنگ کو رسا ہو جائے۔ اس آخری ذریعے سے بھی نادرکہانیاں مل جایا کرتی تھیں۔ انھی غیر ملکی کہانیوں کا یہ مجموعہ آپ کی نذر ہے۔ یہ انتخاب در انتخاب ہے۔ دیکھیے کیسے کیسے موضوعات پر مغرب میں یہ دل نشیں، اثر آفریں، زندگی آمیز اور زندگی آموز کہانیاں تخلیق کی گئی ہیں۔
شکیل عادل زادہ پاکستان کے مقبول ناول نگار، صحافی اور کثیر الاشاعت ڈائجسٹ سب رنگ کے سابقہ مدیر ہیں۔ ان کی پیدائش یکم فروری 1938ء کو مراد آباد، اتر پردیش، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے ۔ان کا اصل نام محمد شکیل ہے ۔ جون ایلیا نے ان کا قلمی نام شکیل عادل زادہ رکھا۔
اس کتاب پر کچھ لکھنے سے پہلے ضروری ہے کہ میں یہ اعتراف کر لوں کہ میں شکیل عادل زادہ کے زیر ادارت سب رنگ ڈائجسٹ سے عملی طور پر نا آشنا تھا۔ جب سے سنجیدہ ادب پڑھنا شروع کیا تو یہ ڈائجسٹ شائد شائع ہونا بند ہوچکا تھا۔ اب بک کارنر، جہلم نے اس میعاری کام کو موجودہ نسل کے سامنے پیش کرنے کی ذمہ داری اٹھائی اور اسے احسن طریقے سے نبھایا۔ اس کتاب کو مرتب حسن رضا گوندل نے شکیل عادل زادہ کی اجازت سے کیا ہے۔ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ ایک شائع شدہ تحریر دوبارہ مارکیٹ میں فروخت کے لیے پیش کی جائے۔ بہرحال یہ تجربہ کامیاب رہا- اس کتاب میں عالمی ادب سے تیس کہانیوں کا انتخاب کیا ہے۔ ایک طرح سے ایک کہانی دو ادیبوں سے آپ کو آشنائی بخشتی ہے، مصنف اور مترجم۔ تمام تراجم میعاری ہیں اور موجودہ باذوق قارئین کے لیے ایک اچھا انتخاب ہے۔ بک کارنر، جہلم نے اسے بہترین انداز سے آرٹ پیپر پر شائع کیا ہے اور تحریر کا فونٹ سائز نہایت مناسب ہے جسکی وجہ سے قارئین کو مطالعہ میں بھی آسانی ہے اور کہانیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ بات قیمت کی اگر کی جائے تو نو سو روپے ہے۔ جو کہ ڈائجسٹ کے قارئین کے لیے زیادہ ہے لیکن اگر بک کارنر، جہلم سے براہ راست منگوائیں تو پچاس فیصد رعائیت مل جائے گی۔ حسن رضا گوندل کی محنت اور محبت قابل تحسین ہے اور انکی پہلی کاوش آپکی محبت اور توجہ کی مستحق ہے۔اس کتا کا انتساب آشفتگان سب رنگ کے نام ہے۔ کتاب کو پانچ میں سے ساڑھے چار ستارے میرے مطابق ہیں۔ از فیصل مجید
اگر آپ کم سےکم وقت میں دنیا بھر کا ادب پڑھنا چاہتے ہیں یا کچھ منفرد پڑھنے کے خواہاں ہیں یا ریڈنگ بلاک کا شکار ہیں اور کوئی کتاب آپ کو اس قدر متاثر نہیں کر پارہی کہ اس سے اپنے ذوقِ سلیم کی تسکین کرسکیں تو میں آپ کو سب رنگ کہانیاں پڑھنے کا مشورہ دوں گا۔
تیس تیس کہانیوں کے ان مجموعات میں عالمی ادب سے چنیدہ ایسی دلچسپ کہانیاں شامل ہیں جو آپ کو مبہوت کرکے رکھ دیں گی اور دھیرے دھیرے آپ کا تجسس ابھارتی چلی جائیں گی۔ قریب ہر کہانی کا انجام آپ کو چونکا کر رکھ دےگا۔ اسلوب بیاں اس قدر شستہ اور عمدہ ہے کہ ترجمے کا گمان ہی نہیں ہوگا۔
کردار نگاری حقیقت سے اس قدر قریب ہے کہ ان کہانیوں کو پڑھتے وقت ان میں موجود منفی کرداروں کی قبیح حرکات پر بے اختیار میرے منہ سے مغلظات نکل گئیں۔ یہ کردار لالچی، خودغرض، ظالم، جابر اور اس قدر وحشی تھے کہ ان سےگھن آنے لگی، حتی کہ نفرت سی محسوس ہونے لگی۔ اس کے برعکس کچھ کہانیاں ایسی تھیں کہ پھانس بن کر میرے حلق میں چبھ گئیں۔ طویل، اداس راتوں جیسی ان کہانیوں میں یک گونہ آسودگی کا سا احساس تھا جس نے مجھے ہر لمحہ اپنے سحر میں جکڑے رکھا۔ اور میں ان کہانیوں کو بار بار پڑھتا رہا۔ ان میں ایک یاسیت تھی، ایک کرب تھا، جس سے مجھے بے پناہ اور ناقابل بیان حد تک اپنائیت محسوس ہونے لگی۔ بڑی ہی پرفریب اور اداس کردینے والی اپنائیت!
کچھ وقت بعد جب یہ کیفیات معدوم ہوئیں تو احساس ہوا کہ یہی تو لکھنے والوں کا کمال تھا کہ جن کےتخلیق کردہ کرداروں نے میرے اعصاب کو اپنے شکنجے میں اس قدر مضبوطی سے جکڑ رکھا تھا کہ میں حقیقی دنیا سے بہت دور نکل کر ان کرداروں کے درمیان کہیں جا بسا تھا۔
میرے لئے خاصا دقت طلب کام ہے کہ کسی ایک کتاب کو انہماک سے پڑھتا رہوں کہ زندگی کی بھول بھلیاں میری توجہ بٹانے کو بہت ہیں۔ تاہم سب رنگ کے ان مجموعات کا یہ امتیاز ہے کہ مصروف ترین زندگی کے لوازمات بھی میری توجہ ان سے ہٹا نہیں پائے۔ یوں ایک سحر کے عالم میں یکے بعد دیگرے سبھی کہانیوں کو پڑھتا چلا گیا۔
ان میں موجود اپنی پسندیدہ کہانیوں کو تو کئی بار پڑھنے پر بھی میرا دل سیراب نہ ہو سکا۔ اس کی وجہ نہ صرف کہانیاں ہیں بلکہ ان کہانیوں کی ترتیب، کتابت کا معیار اور آرٹ پیپر پر چھاپی جانے والی یہ کتابیں اس قدر خوبصورت ہیں کہ مطالعے کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے۔ اب میری خواہش ہے کہ اس سلسلے کا تیسرا مجموعہ بھی جلد از جلد حاصل کروں۔
جہاں اتنی خوبیاں ان کتابوں میں موجود ہیں وہیں ایک کمی بھی محسوس ہوئی جس کی نشاندہی کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ اگر ان کتابوں میں موجود کہانیوں اور مصنفین کے نام انگریزی میں بھی لکھ دیئے جاتے تو اپنی پسندیدہ کہانیوں کے مصنفین کی مزید تحریریں اور ان کی کتابیں ڈھونڈنے میں قاری کو کافی سہولت ہوسکتی تھی۔
انٹرنیٹ کے دور سے قبل جب لوگ سمارٹ فونز کی سکرینوں سے جعلی برقی لطف کشید نہ کرتے تھے تو ڈائجسٹ طبقہ خاص و عام کی لطیف حسیات کی ضروریات پوری کرنے کا ایک رائج الوقت ذریعہ گردانا جاتا تھا۔
ڈائجسٹ لکھنے والے مصنفین ایک خاص مزاج اور طرزِ تحریر کے حامل تھے جو قارئین کے شوق کی آبیاری کرتا تھا۔
اسی دنیا میں ایک ایسا سنہرا دور گزرا جس نے ایک نسل کے قلب و ذہن پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ اس دور کو دورِ سب رنگ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ سب رنگ نے عالمی ادب کے تراجم میں جس معیار کا کام کیا وہ بطور خود ایک معیار بن گیا۔ شکیل عادل زادہ نے سب رنگ کی صورت میں ایک پلیٹ فارم یا ادب کا ایک فریم ورک تخلیق کیا جس نے لکھنے اور پڑھنے والوں کو بیک وقت ادبی ندرت کی انتہا سے روشناس کرایا اور خود کا مقابلہ خود سے کرنے کی نئی ریت ڈالی۔ اس فریم ورک نے بہت سے نئے لکھنے والے پیدا کئے۔ قلم سے رزق کمانے کا ہنر سکھانے کی کوئی درسگاہ ہے تو سب رنگ بلاشبہ ایک ایسی درسگاہ تھا۔
وقت گزرا۔ معیار نہ گھٹا۔ سمجھوتا کرنا محال تھا۔ تخلیق ایک مقدس عمل ہے۔ کاروبار کی بنیاد نفع اور نقصان کے بنیادی اصولوں پر قائم ہوتی ہے۔ کمالِ فن کی شوریدگی کاروباری اصولوں کے آڑے آئی۔ سب رنگ بند ہو گیا۔ مگر تشنگی برقرار رہ گئی۔
بقول عبداللہ حسین "آدمی کی یاد کا لنگر بھی کیا عجب منظر ہے"۔ اسی یاد کی سہارے میں نے بہت لوگوں کو سب رنگ کے لئے بے چین، پرانے شمارے ڈھونڈتے کھوجتے دیکھا ہے۔ ایک اندیکھی ان سنی خواہش تھی کہ سب رنگ کسی طور دربارہ مہیا ہو سکے۔
گزرے وقت کے ان صفحات کو حسن رضا گوندل اور ان جیسے بہت سے یاد گزیدہ شعور و لاشعور رکھنے والوں نے اپنی لوحِ دل پر محفوظ رکھا ہوا تھا۔ پھر بک کارنر والوں نے، جو بلاشبہ قدیم و جدید ادب کو زندہ رکھنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، نے اس کاوش کا بیڑہ اٹھایا اور سب رنگ کہانیاں کتابی شکل میں چھپ گئیں۔ کیا اس ناسٹلجیا کو ایک محفوظ کتابی شکل عطا کرنا سب آشفتگانِ سب رنگ و دیگراں پر ایک احسان نہیں ہے؟
کہانیوں کا انتخاب خوب است۔ ذرا کہانیوں کے انتخاب کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیں:
1945 کے زمانے میں مغربی افسانوی ادب کے تراجم لال چندری سے ایک کہانی: بے ہنر شامل ہے۔ درمیان میں قریب 80 برس کی فصل اور ان برسوں میں زبان نے کتنا فاصلہ طے کیا اور اظہار کے پیرائے کیا سے کیا ہوئے۔ کیا آج بھی زبان اور اس میں تخلیق کردہ شہ پاروں اور پھر ان زمانوں کو پاٹنے کے لئے کوئی ایسا پل بنایا جا رہا ہے جو سب رنگ نے بنائے تھے؟ یا اب بک کارنر والوں کی کاوش نے؟
اور اسی پر کیا اکتفاء کیجیے یہ تو ایک ادنی مثال ہے۔ ایسی سینکڑوں مثالیں سب رنگ کہانیوں میں موجود ہیں۔
میری پسندیدہ کہانی: سمرسٹ مام کی زمیں دوز رہی۔ ڈاکٹر آڈلین اور لارڈ ماؤنٹ ڈریگو کے لافانی کردار۔ یہ بلاشبہ ایک بہترین اور لافانی شاہکار ہے۔ روح اور نفسیات کی گنجھل اور تاریک و روشن گلیاں اور ان میں بھٹکتے ہوئے سمرسٹ کے کردار۔ بہت وقت بعد کچھ پڑھ کر حقیقی لطف حاصل ہوا۔ psychological fiction کی صنف کی اس کہانی سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سب رنگ کا معیار کیا رہا ہوگا۔ اور پڑھنے والوں کی ادبی وسعت کو کس حد تک جلا اور کشادگی عطا ہوئی ہو گی۔
سب رنگ نامی ایک ڈائجسٹ 70 کی ڈھائی میں شروع ہوا جس میں عالمی اور مقامی کہانیاں شائع ہوتی تھیں میں کچھ عرصہ قبل تک اس نام سے نا آشنا تھا لیکن جب بک کارنر جہلم نے اسے کتابی صورت میں شائع کیا تو اس سے واقفیت ہوئی اس کتاب کی اب تک تین جلدیں ریلیز ہوئی ہیں اور میں نے تینوں منگوائیں وجہ صرف یہ تھی کہ میں عالمی ادب سے شناسائی حاصل کرنے کا خواہاں تھا اور سب رنگ مجھے ایک اچھی شروعات لگی اور وہی ہوا کہانیوں کا انتخاب واقعی بہت اچھا تھا سب رنگ کی بدولت ڈان ٹیلر مور، ولیم بریئن، لیو ٹالسٹائی، گلبرٹ رایٹ او ہنری، جولیس اورے وِلی، رولڈ ڈل، بورس لاسکن، موپاساں، جون ہیرس، اے پی ہربرٹ، گرانٹ فریلنگ، سمرسٹ مام، چیخوف، پی رومانوف اور بہت سے مصنفین سے آشنائی ہوئی
پہلی جلد میں 30 کہانیاں ہیں جس میں سے 3 کہانیوں کے مصنفین نا نامعلوم افراد ہیں😛 اپنی پسندیدہ کہانیوں پر اگر تبصرہ کرنے بیٹھوں تو پوسٹ بہت لمبی ہو جائے گی
جو لوگ عالمی ادب سے لگاوٹ رکھتے ہیں اور جو میری طرح عالمی ادب پڑہنے کے خواہشمند ہیں مگر یہ نہیں جانتے کے شروعات کس طرح سے کی جائے انکو یہ کتاب پڑھنی چاہیے
پہلی تین جلدوں میں تو عالمی مصنفین کی تحریریں ہیں لیکن آگے چل کر مقامی ادیبوں کی تحریر کردہ کہانیاں بھی منظر عام پر آئیں گی
ترجمہ نگاری بہت خوب ہے پڑھتے ہوئے یہ احساس نہیں ہوتا کہ ترجمہ پڑھ رہے ہیں
اس کتاب کو پڑھنے سے پہلے بس سب رنگ کے نام سے ہی واقف تھا۔ غالباً جب میں نے ڈائجسٹ پڑھنے شروع کیئے تو یہ شائع ہونا بند ہو چکا تھا۔ میں نے اس کا نام سنا ضرور تھا اور خود میں کالج کے زمانے میں سسپنس پڑھتا رہا ہوں۔ ڈائجسٹ سے اکثر لوگوں کا شکایت ہےکہ یہ ادب کو خراب کر رہے ہیں۔ خیر اپنی اپنی رائے ہے لیکن صاحب، مجھے تو پسند ہیں۔ خاص طور پر جب آپ کی جیب ایک کتاب خریدنے کی اجازت نہ دے تو ڈائجسٹ پھر اس کا ایک سستا نعم البدل ہے۔ خیر جب اس کتاب کی اشاعت کا معلوم ہو ا تو سوچا دیکھوں تو سہی آخر اس کی مقبولیت کی وجہ کیا ہے۔ یوٹیوب پر شکیل عادل زادہ صاحب کے انٹرویو سنے۔ مختلف لوگوں کے کالم پڑھے تو معلوم ہوا کہ سب رنگ کی کیا حیثیت ہے۔ مطلب اشاعت کا اتنا کڑا معیا ر کہ ڈائجسٹ تین سال شائع نہیں ہوا کہ مطلوبہ معیا ر کی کہانیاں دستیاب نہیں ہیں۔ اتنا جنون کی اچھا ملے گا تو شائع کرنا ہے نہیں تو نہیں کرنا۔ بزنس جنون پر تو چلتا نہیں سو سب رنگ شائع ہونا تو بند ہو گیا لیکن ڈائجسٹ کے چاہنے والے کم نہ ہوئے۔ اچھا! اب فین ہونا تو مشکل نہیں لیکن فین ہونے کا حق ادا کرنا مشکل کام ہے۔ حس رضا گوندل صاحب سب رنگ کے فین ہیں اور انہوں نےاس مشکل کام کی ٹھان لی کہ سب رنگ کو آنے والے نسل کے لیے کتاب شکل میں محفوظ کرنا ہے۔ گوندل صاحب کے پاس آج تک شائع ہونے والے تمام سب رنگ کے شمارے موجود ہیں۔ آہستہ آہستہ کہانیاں کتابی شکل میں آتی جا رہے ہیں۔ یہ اسی سلسلے کی پہلی کڑی ہے۔ جہلم بک کارنر نے اس کی اشاعت کا بیڑا اٹھایا ہے۔ میں نے اس سے خوبصورت اشاعت کس کتاب کی نہیں دیکھی۔ بہترین آرٹ پیپر ،عمدہ کمپوزنگ، اعلی سرورق غرض کون سی چیز ہے جس کی تعریف نہ کی جائے۔ بک کارنر والوں نے کوئی کمی نہیں چھوڑی اور اتنی اچھی کتاب شائع کرنے پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اس کتاب میں تیس کہانیوں کا انتخاب کیا گیا ہے۔ عمدہ ترجمہ ہے۔ اس میں میر ی ایک پسندیدہ کہانی “لو از اے فیلیسی” کا ترجمہ بھی شامل ہے۔ پڑھ کے بہت اچھا لگا۔
یہ مختصر بین الاقوامی کہانیوں پر مشتمل کتاب ہے ، جسے بڑی محنت سے ایک نوجوان حسن رضا گوندل نے ترتیب دیا ہے۔ یہ کتاب اس قدر مقبول ہوئی کہ میرے پاس اس کا پانچواں ایڈیشن پہنچا۔ کئی نئے ناموں سے واقفیت ہوئی مجھے جو کہانیاں زیادہ پسند آئیں وہ ہیں، گرامی الاؤنس- اسٹیفن وپسی لک ، پاتال- ہیوپینٹے کوسٹ، موم کا آدمی- ٹالمیج پاول اور آخر میں دیوار- ژاں پال سارتر. مختصر کہانیوں پر مشتمل خوبصورت کتاب ہے رضا صاحب کی کاوش سے ضرور مستفید ہوں۔
I am the reader of Sabrang digest since 1970 when I was in Class I also read continuous reading Bazigar, I wan to read again Subrang rang Kahaniyan on on line because I can not afford the Price of these book. kindly help me how can I read on line. Regards Mohammad yub