منشا یاد سے پہلا تعارف بھی کئی برس پرانا ہے- پی ٹی وی کے عروج کے زمانے میں "راہیں" نام کا ایک نہایت عمدہ اور مشہور کھیل نشر ہوتا تھا- آخر میں لکھا آتا تھا "منشایاد کے پنجابی ناول ٹانواں ٹانواں تارا سے ماخوذ"- بس منشایاد سے محبت تب ہی سے ہوئی اور مسلسل بڑھتی چلی گئی-
"درخت آدمی" منشایاد کے مختلف اوقات میں لکھے گئے کل بیس افسانوں کا مجموعہ ہے- منشایاد کے یہ افسانے پڑھتے ہوئے ایک ہوک سی دل سے نکلتی ہے اور کئی مرتبہ پڑھنے والا ایک ہنکارا بھر کر رہ جاتا ہے- اور پھر منشا یاد چاہتے بھی یہی تھے، وہ کہتے ہیں کہ کہانی لکھتے ہوئے پڑھنے والے کی موجودگی کا احساس رہتا ہے اور کان اس کے ہنکارا بھرنے کی آواز پر لگے رہتے ہیں اور جب تک آپ اونگھتے یا اکتاتے نہیں میں بشرط زندگی ایک کے بعد دوسری کہانی لکھتا اور سناتا چلا جاؤں گا-- مگر پھر زندگی نے آج تک کس سے وفا کی ہے؟ جانے کتنے انکہے افسانے منشایاد کے ساتھ ہی رہ گئے-
راقم ذاتی طور پر منشایاد کو پنجاب کا پریم چند سمجھتا ہے- میرے اپنے مشاہدے اور تجزیے کے مطابق منشایاد کی تحریروں کو پڑھنے اور بجا طور پر سمجھنے کے لیے پڑھنے والے کا پنجاب سے گہرا ذاتی لگاؤ یا "اسٹیک" ہونا ضروری ہے- فقیر کا تعلق بھی پانچ دریاؤں کی اس دھرتی سے بہت گہرا ہے شاید یہی تعلق منشایاد اور ان کی کہانیوں سے محبت کی وجہ بھی ہے-
منشایاد نے پنجاب یا ماں بولی کو کبھی جذباتی جنت یا مقدس معبد کے طور پر پیش نہیں کیا اور پنجاب اور دیہات سے لگاؤ کے باوجود مسائل کو اجاگر کرنے سے کبھی اعتراض نہیں برتا- اس مجموعے کا پہلا افسانہ "شجرِ بے سایہ" اس مٹی کے ہی ایک المیے کا نوحہ ہے- ایک اور افسانہ "پولی تھین" بھی افلاس اور بھوک کے خلاف احتجاج کا ایک استعارہ ہے.
"سانپ اور صدا"، "پنج کلیان"، "پھلوں سے لدی شاخیں"، "اندر کی گھنگھناہٹ"، "اندر کا گھاؤ"، "چھوٹے بڑے لوگ" اور "درخت آدمی" وہ افسانے ہیں جو اس مجموعے یا شاید منشایاد کی ادبی زندگی کے نمائندہ افسانے کہلائے جانے چاہئیں- ان افسانوں میں کہانی کار کا فن بامِ عروج پر ہے اور تکنیکی ندرت کا منہ بولتا ثبوت ہے- یہ افسانے اگر منشایاد کو منٹو، پریم چند، بیدی اور امرتا پریتم سے ممتاز نہیں کرتے تو ان کے برابر ضرور کھڑا کر دیتے ہیں-
"سینگ اور سرگم، "کوکھ پر پاؤں"، نظر کا دھوکہ" اور" بکری شیر اور گھاٹ" معاشرتی مسائل کی ماورائے وقت عکاسی ہیں جو آج بھی اتنی ہی متعلق ہے جتنی کئی دہائیاں پہلے تھی- شاید ایک حساس فنکار ایک طبیب کی طرح ہی معاشرے کا نبض شناس ہوتا ہے جو آنے والے زمانے کے مسائل کو بھی دیکھتا ہے-